اطالیہ میں اُردو زبان و ادب کی صورت ِ حال
جیم فے غوری
اطالیہ میں عرصہ دراز سے ایک روایت چلی آرہی ہے کہ حکومت کی پالیسی کے مطابق ہر سال بجٹ میں مشرقی زبانوں کی ترقی و ترویج کے لیےایک خطیر رقم مختص کی جاتی ہے لیکن اُردو زبان کے حوالے سے صورتحال کافی مختلف اور افسوسناک ہے اگر یہی صورتحال رہی تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اٹلی میں مستقل بسنے والے پاکستانی نژاد اطالوی کی تیسری نسل کے لیے اردو زبان اجنبی زبان ہو جائے گی ،
اطالیہ میں جب ہم اُردو زبان کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اٹھارویں صدی کے آخر اور اُنیسویں صدی کے آغاز میں کچھ شہادتیں ایسی ملتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اُردو زبان کے فروغ کے لیے یہاں کوششیں ضرور کی گئیں ہیں : مثال کے طور پر ویٹکن سٹی روم کی ایک لائیبریری میں ایک ایسی کتاب موجود ہے جس کا نام ‘‘ ہندوستانی زبانوں کا خزانہ ’’ ہے جس کو فراپولنیو بارہ لومیو نے ترتیب دیا ہے ۔اسی لائیبریری میں میر سحر علی افسوس کا قلمی نُسخہ ‘‘ آرائش ِ محفل ’’ بھی موجود ہے جو اس وقت کے پوپ پائیس نہم کو تحفہ کے طور پر پیش کیا گیا تھا اس کے علاوہ کامیلوتالیابو کی لکھی اُردو گرائمر کی کتاب جو اصلی مشرقی انسٹی ٹیوٹ ناپولی کے زیر ِ اہتمام شائع ہوئی تھی ، آج بھی موجود ہے موجودہ دہائی میں محترمہ تمثیل مریم نے پارما کی یونیورسٹی میں ‘‘ پاکستان میں بچوں کا ادب ’’ پر مقالہ لکھا ہے اٹلی کے مشہوردانشور جناب ویٹو سیلیرنو نے حضرت علامہ اقبال کی شاعری کی کتاب ‘‘ بانگ ِ درا ’’ اور بال جبرئیل کا اُردو سے براہ راست اطالوی زبان میں ترجمہ کیا ہے ، لیکن اطالیہ میں اُردو کی صحیح اورحقیقی حوصلہ افزائی اور اس کے ادبی سرمایہ کی خوبصورتی کا اعترف اور برصغیر پاک و ہند میں اس کی اہمیت اور خدمات کا اعتراف کا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب اطالیہ کے لسانی باب کے منظر نامے پر روم سے تعلق رکھنے والا السیندرو روُ بُوسانی نمودار ہوتا ہے جس نے بہت سے مضامین اُردو ادب میں جدیدیت کے حوالے سے تحریر کیے ہیں اس نے اپنے مضامین انجمن ترقی اُردو کی شائع کردہ پبلی کیشنز پر لکھے ہیں جو ڈاکٹر صیادؔ کی لکھی کتب ‘‘ اقبال کے محبوب اشعار ’’ اور ‘‘ کارون ِ خیال ’’ پر تبصروں کے حوالے سےلکھے گئے طویل مضامین پر مشتمل ہیں اُنیس سو پچاس کی دہائی میں بُوسانی نے حضرت علامہ اقبال اور ایلگری دانتے پر بھی مضامین لکھے اس کے علاوہ علامہ اقبال کی مذہبی فلاسفی اور مغرب کے عنوان سے طویل مضامین تحریر کیے جن میں غالب کے اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اقبال کی شاعری میں غالب کی گونج سنائی دیتی ہے مثال کے طور پر غالب کا شعر دیکھیے
عشق سے طبعیت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا
اور علامہ اقبال کا شعر دیکھیں
ہے کہاں تمنَا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت ِ امکاں کو اک نقش ِ پا پایا
بُوسانی اقبال کے ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کا ذکر بھی کرتا ہے اور اقبال کے حالی کا ذکر یوں کرتا ہے کہ حالی ہمیشہ زندہ رہنے والا نام ہے بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ میں جب لب کھولتا ہوں تو سب سے پہلے حالی کا نام میری زبان پر آتا ہے وہ لکھتا ہے کہ حالی بھی فکر ِ غالب کو آگے لے کر چلتے ہیں ،اطالیہ میں آج یہ تاثر عام ہے کہ اُردو زبان عربی اور فارسی بولنے والے ممالک سے آئے ہوئے باشندوں کی زبان ہے لیکن اُردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی اور اسے وہاں کے باشندوں نے پروان چڑھایا اس کی بناوٹ ہندی جملوں کی طرزپر ہے عربی زبان کی گرائمر پر اس کی گرائمر کی بنیاد ہے اس میں ڈھیر ساری زبانوں کے الفاظ شامل ہیں اور کبھی کبھی یہ تفریق کرنا مشکل ہو جاتی ہے کہ سامنے والا شخص ہندی بول رہا ہے یا اُردو زبان بول رہا ہے اٹلی میں اُردو زبان کی بے لوث خدمت حلقہ ِ ادب و ثقافت ِ پاکستان اٹلی اور مجلس اقلیتی مصنفین جنوبی ایشا اٹلی اور مجلس مسیحی مصنفین جنوبی ایشیا یورپ کے علاوہ چند لوگ اپنے طور پر اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ان کے علاوہ اُردو اخبارات جذبہ، فری ہینڈ اور بول جو انٹر نیٹ پر باقاعدگی کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں ان کا اُردو کی ترقی اور ترویج میں نمایاں کردار ہے مگر پاکستانی سفارت خانے اور کونسلیٹ جنرل کی طرف سے نہ تو کوئی مخصوص بجٹ ہے جو اردو کی ترقی کے لیے واقف ہے اور نہ ہی سفارت خانے اور کونسلیٹ جنرل کی بڑی بڑی عالی شان عمارتوں میں زبان کی ترقی اور نئی نسل کو اردو ادب و ثقافت اور زبان کے حوالے سے آگاہی دینے کے لیے کوئی جگہ اور انتظام ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے چند ایک پروگراموں کے علاوہ کبھی کوئی پروگرام ( اردو زبان کی ترقی و ترویج پر سمینار، مشاعرہ ، مذکرے )منعقد نہیں ہوا ہے موجودہ حکومت سے پرُزور درخواست ہے کہ اردو زبان کی ترقی و ترویج کے ساتھ پاکستانی ثقافت کو اٹلی میں روشناس کروانے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ ( جیم فے غوری:۔ پاکستانی نژاد اطالوی شاعر و ادیب، صحافی اور دانشور ہیں بہت سی کتابوں کے خالق ہیں)
حوالہ جات
٭.Professor Massimo Bon teaches Urdu language and literature at the Oriental University of Naples.(An Italian in love with Urdu)
٭ Urdu in Italy : Alessandro Bausani’s Contribution (Daniele Bredi)
-Dante and Iqbal (: Alessandro Bausani’s
-Bonucci A- Review of Iqbal’s Secrets of the self-
-Prof. Vito Salierno’s contribution to the study and diffusion of the knowledge of Allama Muhammad Iqbal’s work in Italy and Europe ( Sabrina Lei)
-Literature for Infancy and Adolescence in Pakistan.( Tamseel Mariam)
——–